ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے

ساخت وبلاگ
انتخابات کے بعد!اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہوشیار باش ✍️: عارف بلتستانیبقا اور ارتقا کےلئے مزاحمت ضروری ہے۔ مزاحمت کیلئے امتحان، دشمن اور مشکلات چاہیے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ دشمن ، امتحانات اور مشکلات سے برسر پیکار رہے۔ کسی بھی صورت میں مزاحمت سے ہاتھ نہ اٹھائے۔ مزاحمت سے ہاتھ اٹھانا یعنی زوال اور شکست کے لئے راضی ہونا۔ وہ دشمن چاہے داخلی ہو یا خارجی، دشمن، دشمن ہی ہوتا ہے۔دشمن کو کبھی اپنا ولی، حاکم اور آقا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ عقل انسانی کے منافی ہے۔ پاکستانی جب مسلمان ہیں اور ایک قوم ہیں تو پھر وہ کیسے اپنے دشمنوں کو اپنا آقا مان سکتے ہیں؟۔ مسلمانوں اور پاکستانیوں کے دشمن مسلمان فرقے نہیں بلکہ یہود و نصاری اور ہنود نیز انکے چیلے ہیں جو آج بھی وطن عزیز میں مسلکی اور مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ہمارے دشمن اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ، جب تک ہم انہی میں سے ایک نہ ہو جائیں یا ان کے نقشِ قدم پر نہ چل پڑیں۔ مسلمانوں نے آخری چند صدیوں میں جہاد و مزاحمت سے ہاتھ اٹھایا ہے تو تمدن اسلامی پر تمدن اٹلانٹک (غرب) نے غلبہ حاصل کر لیا ۔ اس موضوع پر "مقاومت اور مقاومتی بلاک" نامی کالم میں ہم نے تفصیلی بحث کی ہے۔اس کالم میں ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ امریکہ رو بہ زوال ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ وہ اب منطقے میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس لیے رجیم چینج کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسی صورت حال میں پالیسی ساز شخصیات، ادارے اور عوام کو چاہیئے کہ اسی کا ساتھ دیں، جو امریکہ مخالف پالیسی رکھتا ہو اور سوچنا بھی چاہیئے کہ تمدن اسلامی کے بجائے تمدن غرب کی بقا کے لئے کیوں جنگ لڑ رہے ہیں۔؟ لیکن یہ یاد رکھئے کہ جس نے بھی امریکہ کی خ ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 29 تاريخ : دوشنبه 30 بهمن 1402 ساعت: 14:30

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 57 تاريخ : دوشنبه 30 بهمن 1402 ساعت: 14:30

نظامِ امامت یا؟ | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات نظامِ امامت یا؟✍️: محمد بشیر دولتیمیں کئی سالوں سے قبلہ سید جواد نقوی کو سنتا اور پڑھتا آ رہا ہوں۔وہ میرے آج بھی پسندیدہ خطیب ہیں۔ ان کی دینی و علمی اور ثقافتی خدمات کا معترف ہوں۔ اس وقت ان کے کافی نظریات اور روش علمی نقد کے قابل ہیں ان پر پھر کبھی تفصیلی بات ہوگی۔میں نے انہیں بیس مارچ دوہزار تیئیس میں ""وطن کی فکر کر ناداں""کانفرنس کرتے دیکھا تھا ۔اس کانفرنس کی اہم بات حکومت پاکستان کی طرف سے شائع شدہ کتاب "پیام پاکستان" کی تشہیر تھی۔ موصوف مختلف کانفرنسوں میں اس کتاب کو سینے سے لگائے، ہاتھوں میں لئے ، اسے پڑھنے اور سمجھنے کی تبلیغ فرمایا کرتے تھے۔محترم قارئین آپ بھی اس کتاب بارے کچھ جان لیجئے۔ مسلم لیگ نون کے پچھلے دور میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان محترم ممنون حسین صاحب کے زمانے میں ایک سیمینار "میثاق مدینہ" کے عنوان سے منعقد ہوا ۔ شاید یہ وہی دور تھا جس میں محترم نواز شریف کو امیرالمومنین بننے کا بڑا شوق چڑھا ہوا تھا۔ بقول استاد محترم کے اس سیمینار میں پورے پاکستان سے جید علماء و دانشور حضرات نے شرکت کی ۔ سیمینار کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میثاق مدینہ کی روشنی میں پاکستانی معاشرے کی تشکیل نو کی طرف قدم بڑھانا بتایا گیا تھا۔ بقول استادِ محترم! موجودہ صدر عارف علوی صاحب کی صدارت میں دوبارہ اس کتاب کو تکمیل کے مرحلے تک پہنچایا گیا اور ادارہ تحقیقات اسلامی نے اسے چھاپا۔استاد محترم کے بقول اس کتاب کے مسودے پر اٹھارہ سو علمائے کرام نے دستخط کئے۔ اس میں ہمارے سرور جناب بخاری (استاد کا نمائندہ) صاحب بھی پیش پیش تھے۔اسی کتاب کے صفحہ نمبر 16 پر لکھا ہوا ہے کہ "پاکستان کے بعض دشمن عناصر معصوم بچوں کو اس نعرے س ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 29 تاريخ : دوشنبه 30 بهمن 1402 ساعت: 14:30

ایرانی اقدامات  اور تجزیہ کاری | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات ایرانی اقدامات اور تجزیہ کاریایم اے راجپوت18 جنوری 2024 بروز جمعرات پاکستان نے ایران کے خلاف جوابی کاروائی کی۔یہ کاروائی کرنی چاہئے تھی یا نہیں ؟پاکستان نے خود کی یا کسی نے کرائی؟فی الحال ان سوالات کے جوابات سے بحث کرنا مقصود نہیں۔اس تحریر کا اصل موضوع اس کاروائی کے بعد بعض پاکستانی تجزیہ نگاروں اور صحافی حضرات کے وہ تجزیہ جات ہیں جن کو سن کر ہر مسلم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ کیا ایسی باتیں کوئی مسلم بھی کر سکتا ہے؟مثلا بعض تجزیہ نگاروں نے ایران کی جانب سے غاصب و جعلی اسرائیل کے مقابل مظلوم فلسطینیوں ،قبلہ اول بیت المقدس اور طون الاقصی اور غزہ کی حمایت کو ایران کا عیب شمار کیا اور مشرق وسطی میں ایران کی جانب سے اسے شرارت کہا جبکہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران ملت فلسطین کی پشت پر نہ ہوتا تو آج باقی ماندہ فلسطین بھی غاصب اسرائیل کے قبضے میں جا چکا ہوتا۔اسی طرح بعض تجزیہ نگاروں نے ایران کی جانب سے داعش اور اس کے سرپرستوں کے مقابل عراق اور شام کی غیور، مسلم ومومن عوام کی حمایت پر منفی ریمارکس دئیے جبکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر ایران ان دوملکوں کی مدد کو نہ پہنچتا تو داعش کے توسط سے دونوں ملکوں کے شیعہ سنی مسلمان ذبح ہو چکے ہوتے اور عالمی دہشت گرد امریکہ دونوں ملکوں کی سرزمین کو ٹکڑے ٹکڑے کر چکا ہوتا۔دشمن اسلام امریکہ اور داعش کو ناکام بنانے والا ایران ہی تھا ۔پھر بعض تجزیہ نگار ایران کی جانب سے حزب اللہ لبنان ،انصار اللہ یمن اور حماس جیسی غیور تنظیموں کی حمایت پر تنقید کرتے ہوئے اور اسے ایران کا ایک ویک پوائنٹ شمار کرتے ہوئے سنے گئے۔گویا ان تجزیہ نگاروں کے نزدیک عالمی دہشت گرد امریکہ ،غاصب ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 35 تاريخ : يکشنبه 1 بهمن 1402 ساعت: 23:01

پاک ایران کشیدگی اور تین باتیں | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات پاک ایران کشیدگی اور تین باتیںنذر حافیہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں پر لاعلمی کی حکومت ہے۔ میرے لئے بحیثیتِ پاکستانی یہ افسوس کا مقام ہے کہ جس ملک میں سیاستدانوں کے ٹیلی فون تک ریکارڈ ہوتے ہیں، اس میں سائبر کرائمز اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔فیک آئی ڈیز کے ذریعے اور طرح طرح کے سائبر ہتھکنڈوں سے جگہ جگہ عام شہریوں کو لوٹا جا رہا ہے لیکن متعلقہ ادارے لاعلم ہیں۔گزشتہ سالوں میں دہشت گردوں نے پاکستان میں اسّی ہزار نہتّے انسان مار دئیے لیکن ہمارے ملکی اداروں کا بیانیہ یہی ہے کہ ہمیں دہشت گردوں کے ٹھکانوں، مدارس اور مسلک کا علم نہیں۔اسامہ بن لادن پاکستان میں قتل ہوا لیکن ہمارے سیکورٹی اداروں کا بیانیہ یہی رہا کہ ہم پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی سے لا علم تھے۔گزشتہ کئی سالوں سے تفتان اور ریمدان بارڈر پر جو مسافروں، علمائے کرام اور زائرین کے ساتھ ہو رہا ہے ، وہ سب ہمارے ملکی اداروں کے علم میں بالکل نہیں ۔اسی طرح پارہ چنار میں کتنے ہی برس سے جو اہل تشیع کا ہولوکاسٹ جاری ہے، اس حوالے سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور مذہب کا ملکی اداروں کو کچھ پتہ نہیں۔آئے روز گلگت و بلتستان کے مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن قاتلوں کے ٹھکانوں اور مدارس و مسلک کا ہمارے سیکورٹی اداروں کو کوئی علم نہیں۔سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ایران کی جانب سے واضح اور مطلوبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر میزائل داغنےکے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے تہران سے کہا کہ وہ اسلام آباد کو پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کے ٹ ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 32 تاريخ : يکشنبه 1 بهمن 1402 ساعت: 23:01

خود مختاری کچھ اور؟ | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات یہ پاکستان کی خود مختاری کا مسئلہ ہے یا کچھ اور؟ایم اے راجپوتہم نے گزشتہ کالم میں یہ عرض کیا تھاکہ ہر تجزیہ کار کو یہ حق ہے کہ وہ پاکستان و ایران کی حالیہ کشیدگی کا جائزہ لے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دینِ اسلام ، بھائی چارے اور اُمّت مسلمہ کے تصوّر کو ہی مٹا دیا جائے اور ایران و پاکستان کے درمیان دشمنی کی آگ کو مزید بھڑکانے کیلئے کام شروع کر دیا جائے۔ ہمیں حالات کا جائزہ اس لئے لینا چاہیے تاکہ دوبارہ ایسے حالات پیش آنے سے بچا جائے۔ہمارے خیال میں پاکستان نے ایران کے جواب میں جو کیا اُس کا کسی بھی خود مختار ملک کو جوابی طور پر قانونی حق پہنچتا ہے ۔ اس قانونی حق کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ یہی قانونی حق پاکستان نے کبھی امریکہ یا افغانستان کے خلاف کیوں استعمال نہیں کیا؟ہماری حکومت ایسے سخت اقدامات افغانستان اور امریکہ کے پاکستان کے اندر آکر حملوں کے خلاف کیوں نہیں کرتی؟!عملی طور پر افغانستان کے دہشت گرد طالبان حکمرانوں اور امریکی دہشت گرد حکومت کی طرف سے ہماری سالمیت اور خود مختاری پر ہونے والے ہزاروں حملوں کا جواب ہم نے کبھی آج تک ایسا نہیں دیا جیسا ایران کو دیا ہے۔ہم افغانستان کے حوالے سے مختصر اشارہ کرتے ہیں ۔ دیکھیں جب سے دوبارہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے ۔انھوں نے سب سے پہلے باونڈری لائن اکھاڑ پھینکی ۔کتنی دفعہ سرحد پار سے ہمارے وطن عزیز کے اندر لشکر کشی ہو چکی جس کی وجہ سے قبائلی علاقہ جات کے حالات مسلسل خراب ہیں لیکن ہماری حکومت نے افغانستان کو آج تک ایسا جواب نہیں دیا جیسا ایران کو دیا۔اور اس سے بھی افسوسناک صورت حال انٹرنیشنل دھشت گرد امریکہ کی ہے ۔بہت پیچھے نہ جائیں ۔سنہ 2 ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 35 تاريخ : يکشنبه 1 بهمن 1402 ساعت: 23:01

صحابہ کرامؓ اور "سُقْرَاط" کیا صحابہ کرامؓ کے بارے میں "سُقْرَاط" کچھ پوچھ سکتا ہے؟نذر حافیصحابہ کرامؓ کا تقدس قرآن مجید کا طے شُدہ ہے۔ البتہ ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ اس طے شُدہ تقدس کو سمجھنے کا حق ہر مسلمان کو ہے یا نہیں؟ سمجھنے اور ٹھونسنے کا عمل کبھی بھی ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ جس دین کے پیروکاروں میں سمجھنے کے بجائے ٹھونسے اور رٹنے کا رواج اور ثواب ہو۔۔۔ کیا اُس کے پیروکار دیگر اقوام کے ساتھ شانہ بشانہ چل سکتے ہیں؟؟؟؟وقتِ آخرسقراط نے جلاد سے زہر کا جام مانگا۔ جلادنے کہا ابھی سورج کی کرنیں سامنے والے ریت کے ٹیلے پر نہیں پڑیں۔ ابھی وہ کچھ دیر مزید جی سکتا ہے۔ اُس کی رائے تھی کہ پہلے جتنے بھی لوگوں کو سزا دی گئی وہ اس فرصت میں زیادہ سے زیادہ کھانے پینے اور لطف اٹھانے کی کوشش کرتے تھے، سوہ وہ بھی ایسا کرے۔ سقراط نے کہا کہ ایسا کرنے والوں کا خیال تھا کہ زندگی بس یہیں ختم ہو رہی ہے لہذا وہ یہی کچھ کرتے تھے لیکن میرے نزدیک ایسا نہیں ہے۔یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے تین سو سال پہلے کی بات ہے۔ سقراط پر لوگوں کے بچوں کو گمراہ کرنے کا الزام تھا۔ سقراط کی وجہ سے اُس زمانے کی نئی نسل ، بابوں کی کہانیوں کے سحر سے نکلتی جا رہی تھی۔کہانیوں کے نشے میں بھی عجب طاقت ہوتی ہے۔ اگر کوئی قوم کہانیوں کی عادی ہو جائے تو اُسے بیدار کرنے کا انجام ہر دور میں سقراط جیسا ﴿قتل، جلسے جلوس، اورتحریر و تقریر پر پابندی﴾ہی نکلتا ہے۔سقراط کا کہنا تھا کہ اخلاق، عدالت، وطن پرستی، اور قانون کی اطاعت یہ سب کہانیاں نہیں ہیں، انہیں عملاً معاشرے میں دکھاو۔یہ درست ہے کہ اگر قوانین عقل اور دانش کے مطابق ہوں تو جو شخص بھی ان قوانین پر عمل کرے گا وہ کامیابی اور فلاح و بہبود کو پائے گا لیکن اگر حکومت خود عقل او ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 30 تاريخ : دوشنبه 25 دی 1402 ساعت: 12:35


1. فکری یکسوئی

2. اجتماعی مسائل

3. مقالہ جات

4. افہام و تفہیم

5. معقول بیانیہ

6. دین اور انسان

7. علمی مذاکرہ

8. نقد و نظر

9. نظریاتی تعامل

10. جذبات و احساسات

پیغامِ اقبال

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 27 تاريخ : دوشنبه 25 دی 1402 ساعت: 12:35

قرآنی شعورِ انقلاب | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات قرآنی شعور انقلابعلمی نقداشرف سراج گلتریعلامہ عبیداللہ سندھی کی کتاب "قرآنی شعور انقلاب" کا بندہ حقیر نے تاتفسیر سورہ حشراجمالی مطالعہ کیا ہے۔ اس کے بعد چند ملاحظات پیش کررہاہوں۔کتاب زیادہ ضخیم ہونے کی وجہ سے پوری کتاب کا مطالعہ ممکن نہ ہوسکا۔ مصنّف کے حوالے سے کلی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صاحب کتاب تحلیلی صلاحیت بہت اچھی ہے۔ اگرچہ کتاب کے بعض مطالب سے اختلاف کا حق قارئین اپنی جگہ محفوظ رکھتے ہیں۔ فی الحال علمی نقد کی خاطر گیارہ نکات کو میں بیان کئے دیتا ہوں۔جناب سندھی صاحب نے بعض مقامات پر حقائق سے چشم پوشی کی ہے ۔مثلا:۱۔صلح حدیبیہ میں ،حضرت عمر کا سفیر بننے سے انکار، پھر صلح کے بعد اس صلح پر حضرت عمر کا شدید اعتراض ، اس کا تجزیہ و تحلیل تو دور کی بات ذکر بھی نہیں کیا گیا۔۳۔ذوالقربیٰ کی تفسیر میں سنّتِ رسولؐ اور حادیثِ رسول ؐکی قطعی مخالفت کی گئی۔ یہ مخالفت اس حد تک ہے کہ اہلِ بیت ؑ کو ذوالقربی سے نکال دیا گیا۔۳۔باغ فدک جو فئے میں رسول اللہ کی ملکیت میں آیاتھا ، اور رسول اللہ نے جناب سیدہ کوہبہ کیاتھا۔ اسے خمس کہا ہے حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ باغِ فدک اصلاً خمس نہیں تھا۔ یہ مسلمانوں کے بیت المال سے بطورِ خمس بی بی ؑ کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ رسولؐ نے اپنی ملکیّت سے اپنی بیٹی ؑکو دیا تھا۔۴۔ محترم مصنّف نے باغِ فدک کےمسئلے کو بنی ہاشم کامسئلہ قرار دیاہے،اور جناب سیدہ کے دعوے کو بنی ہاشم کی ترجمانی بتایاہے، جبکہ بنی ہاشم کا باغ فدک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔۵۔ بنی ہاشم نے خمس کی بنا پر کبھی باغِ فدک کا مطالبہ نہیں کیا۔۶۔ جناب سیدہ نے باغ فدک پر دعوا کیاتھا کہ یہ باغ رسول اللہؐ نے مجھے ہبہ کیا تھا اور یہ رسول ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 63 تاريخ : دوشنبه 25 دی 1402 ساعت: 12:35

شہدا مکتب میں کیسے تبدیل ہوتے ہیں؟ایم اے راجپوتیہ ۴جنوری ۲۰۲۴ کی بات ہے۔ ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے نماز مغربین کے بعد مدرسہ حجتیہ کے شہید مطہری کانفرنس ہال میں تکریم شہدا کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ کانفرنس شہید قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کی مناسبت سے تھی۔ جمعرات کی شب ہونے اور حرمِ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے نزدیک ہونے کی وجہ سے کانفرنس کو چار چاند لگ گئے تھے۔کانفرنس کی اہمیّت کے باعث کانفرنس ہال کی کرسیاں کم پڑ گئیں جو کہ حوزہ علمیہ قم کے طلبا کی شہید سلیمانی سے والہانہ عشق و محبت کی علامت ہے۔اس عظیم الشّان کانفرنس پر میرے قلم اٹھانے کی وجہ اس کانفرنس کے خصوصی خطیب﴿ قم میں مقیم بحرینی طلاب کے حوزہ علمیہ کے سربراہ جناب حجت الاسلام والمسلمين آقای عبد اللہ دقاق حفظہ اللہ ﴾ کی طرف سے بیان کئے گئے وہ نکات ہیں جو انہوں نے ایک شہید کو مکتب میں تبدیل کرنے کیلئے ضروری بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ شہید شہادت سے پہلے فقط ایک فرد اور محض ایک شخص ہوتا ہے۔لیکن شہادت کے بعد وہ ایک مکتب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔لیکن یہ تبدیلی کیسے واقع ہوتی ہے؟آقای دقاق نے یہ سوال اٹھانے کے بعد فرمایا: شہید ایک شخص سے مکتب میں خود بخود تبدیل نہیں ہو جاتا بلکہ شہید کے شخص سے مکتب میں تبدیل ہونے کیلئے شہید کے ورثاء ، شہید کی قوم ، شہید کے پیروکاروں اور شہید کے محبّوں کو کچھ اقدامات کرنے پڑتے ہیں، جن کے بعد شہید ایک شخص سے مکتب میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ان اقدامات میں سے پانچ اقدامات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔۱۔ شہید کے ذکر کو زندہ رکھتے ہوئے اس کے افکار، سوچ،نظریات،اقوال اور میدان عمل میں حضور کی نشرو اشاعت اور اسے مختلف طریقوں سے آئندہ نسلوں تک پہنچانا۔۲۔پہلے اقدام میں بیان شدہ نکات کی نشرو اشاعت اور انہی ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 37 تاريخ : يکشنبه 17 دی 1402 ساعت: 14:37

تکریم شہداء کانفرنس۔۔۔ہم بھی وہیں موجود تھےرپورٹ:منظوم ولایتیآج چھ جنوری ہے۔ یہ دن ہمارے ملی شہید اور قومی ہیرو اعتزاز حسن کی شہادت کا ہے۔ چار جنوری کو قم المقدس میں ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے تکریم شہداء کانفرنس منعدق کی گئی۔ مجھے شہید اعتزاز حسن کے حوالے سے اس کانفرنس کا پیغام بہت یاد آ رہا ہے۔ اب تک تکریم شہدا کانفرنس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ برادر سعید کاظم ، محترم محمد علی شریفی، رفیق انجم اور ایم اے راجپوت صاحب نے مختلف اور اہم زاویوں کا احاطہ کیا ہے۔کانفرنس کی اہمیت کے پیشِ نظر یقیناً مزید تحریریں ابھی راستے میں ہوں گی۔ بہر حال جیسے ہر پھول کی اپنی منفردخوشبو ہوتی ہے اسی طرح ہر قلمکار کی بھی اپنی ہی مہک ہوتی ہے۔ہم بھی وہیں موجود تھے چنانچہ ہم نے جو دیکھا وہ بھی بیان کئے دیتے ہیں۔ کانفرنس کا آغاز برادر سید اقتدار شاہ نقوی صاحب نے اپنی خوبصورت آواز میں تلاوت کلام الہی سے کیا۔بعد ازاں ہمارے دوست محمد رفیق انجم صاحب نے منقبت پڑھی پھر ترانہ شہادت کی سعادت برادر محترم سید مظہر مصطفوی نے حاصل کیا۔اس کے بعد ناظمِ کانفرنس کی دعوت پر برادر ذیشان حیدر جوادی نے بھی شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔تکریم شہداء کانفرنس کی جان تقریب کے مہمانِ خصوصی کا خطاب تھا۔ مدارس دینیہ بحرین کے مدیر حجة السلام والمسلمین علامہ شیخ الدقاق مدظلہ نے ' بطورِ مہمان خصوصی انتہائی اہم اور فکر انگیز گفتگو کی۔ انہوں نے "شہادت کو مکتب میں بدلنے کے خطوط" کے موضوع پر خطاب کے آغاز میں حاج قاسم سلیمانی کے مزار پر حالیہ شہید ہونے والے افراد کیلیے خصوصی فاتحہ خوانی کرائی اور ملت اسلامیہ کو تسلیت و تعزیت پیش کی۔ آپ نے کہا کہ شہید عارف حسین الحسینیؓ، شہید سید عباس موسوی،شیخ احمد یٰسین وغیرہ شہادت سے پہلے تک محض افراد تھے ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 30 تاريخ : يکشنبه 17 دی 1402 ساعت: 14:37

سالِ نو! یہ نسلِ نو پوچھ رہی ہےاز ✒️:ابراہیم شہزاد9 مئی کا دن بھی کیا دِن ہے!۔ ہماری ملکی تاریخ میں بدترین آئین شکنی کا دن۔ اس روز ریاستی اداروں کو نذر آتش ، مسمار اورہمارے قومی ہیروز کے مجسموں کو پاش پاش کیا گیا۔ بعدازاں سرکاری ادارے حرکت میں آئے۔ سینکڑوں ملزم جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے بند کر دیے گئے۔ ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ بھلا ریاست اور ملک کی آئین شکنی کوئی معمولی بات تھوڑی ہے کہ جس پر خاموش رہا جائے۔ 9 مئی کو جن لوگوں نے پاکستان کی املاک کو نقصان پہنچایا وہ سب سزا کے مستحق ہیں لیکن صرف 9 مئی کے مجرموں کو ہی سزا کیوں؟ہر وہ دن جس میں پاکستان کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہو وہ بھی 9 مئی کی طرح قابل افسوس اور قابل مذمت ہونا چاہیے اور 9 مئی کے ملزموں کی طرح ہر وہ شخص مجرم ہے جو پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ایک انسان کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے اگر اغوا کر لیا جائے اور سالوں سال غائب رکھا جائے تو کیا یہ جرم ۹ مئی سے کم ہے؟۔کہا جاتا ہے کہ "موت کے بعد بچھڑنے" سے کہیں زیادہ دکھ، "موت سے پہلے بچھڑنے والے" کا ہوتا ہے کیونکہ بچھڑنے والے کی واپسی کی آس اہلِ خانہ کو سولی پر لٹکائے رکھتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ لواحقین کو اس اغوا شدہ شخص کا کہیں ذکر کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ مسنگ پرسنز کی بات کرنے والوں کو بھی سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔اب سیکورٹی کے حوالے سے ملکی فضابالکل فلسطین اور مقبوضہ کشمیر جیسی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو سرگوشیاں شوربن جاتی ہیں، سکوت نقارہ بن جاتا ہے، زنجیر اور رسن کے خدشے ختم ہو جاتے ہیں۔لگتا ہے کہ وہ ریاست جوماں ہوتی ہے وہ تو اپنا وجود کھو چکی ہے۔ بلوچستان کے لوگ اب ماں (ریاست) کے پاس اپنی شکایات لے کر اسلام آباد گئے ہوئے ہیں ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 36 تاريخ : دوشنبه 11 دی 1402 ساعت: 13:59

سقوطِ ڈھاکہ کا ایک ورق✍️ رائے یُوسُف رضا دھنیالہ16 دسمبر، 1971ء کو مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا تھا ۔ یہی وہ دن ہے کہ جب پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے جنرل'>جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ڈھاکہ میں ہتھیار پھینک کر ہندوستان سے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی۔ اس موقع پر مجھے وہ تاریخی طعنہ یاد آرہا ہے جو مُکتی باہنی کے بانی جنرل عطأ الغنی عثمانی نے جنگ کے خاتمے کے بعد جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو دیا تھا۔اس طعنے کے پسِ منظر کو جاننے کی ضرورت ہے۔فاتحِ بنگال جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ 1916ء میں جہلم کے قصبے کالا گوجراں، متحدہ پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ 1939ء میں اُنہوں نے برِٹش انڈین آرمی جوائن کی اور جنگِ عظیم دوئم میں برما کے محاذ پر لڑے۔1971ء میں وہ ہندوستانی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ تھے جب اُنہیں مشرقی پاکستان پر فوج کشی کا حکم ملا۔ میجر عطأالغنی عثمانی کا جنم 1918ء میں سلہٹ، مشرقی بنگال میں ہوا اور دوسری جنگِ عظیم میں وہ ایک برطانوی مکینیکل ٹرانسپورٹ بٹالین کا حصہ تھے۔ تقسیم کے بعد عثمانی پاکستانی فوج میں شامل ہو گئے۔1947ء میں عثمانی کشمیر کے محاذ پر ہندوستانی افواج کے خلاف لڑے لیکن اُن کی بہترین خدمات 1965ء کی جنگ میں سامنے آئیں جب اُنہوں نے اپنی اعلیٰ عسکری کارکردگی کے باعث ستارۂ جرأت اور تمغہ جرأت سمیت 17 تمغے حاصل کیے۔1970ء کے قومی انتخابات میں عوامی لیگ کی جیت کے باوجود جب اُس وقت کے فوجی حکمرانوں نے اقتدار شیخ مُجیبُ الرحمان کو نہ سونپا بلکہ الٹا بنگالیوں کو غدّار کہہ کر اُن کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا تو ایسے میں مشرقی پاکستان میں جب کشیدگی شروع ہوئی تو میجر عثمانی نے اپنی ہمدردیاں بدل لیں اور اُنہوں نے فوج سے مُنحرف ہو کر بنگال میں ایک باغی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام آگے چل کر ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 34 تاريخ : يکشنبه 3 دی 1402 ساعت: 13:18

مولانا آزاد کی غلط پیشین گوئیاںنظریۂ پاکستان اور دو قومی نظریے کے مخالفین مولانا آزاد کی پاکستان کے حوالے سے کی گئی پیش گوئیوں کو پاکستان کے وجود کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اور پاکستان کے حوالے سے مولانا آزاد کی ہر پیش گوئی کا جواب منیر احمد منیر کی تصنیف ’’مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان۔۔۔ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط‘‘ میں بھرپور طریقے سے دیا گیا ہے۔مولانا آزاد کی پیش گوئی تھی کہ ’’بنگالی بیرونی قیادت قبول نہیں کرتے اسی لیے مسٹر اے کے فضل حق نے قائداعظم کے خلاف بغاوت کردی تھی‘‘۔ مصنف منیر احمد منیر نے تاریخی حوالوں سے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اے کے فضل حق نے قائداعظم کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی تھی۔ ان کی طرف سے پارٹی ڈسپلن کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں پر آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کی رو سے صدر مسلم لیگ قائداعظم نے انضباطی کارروائی کی‘‘۔ مولانا آزاد کی اس دلیل کہ ’’بنگالی باہر کی قیادت کو مسترد کردیتے ہیں‘‘ کے جواب میں مصنف نے تاریخی حوالوں کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگال کے پہلے غیر بنگالی مگر مسلمان حکمران سلطان بختیار خلجی سے لے کر جنرل ایوب خان تک بنگالیوں نے کسی بھی حکمران کو اس لیے مسترد نہیں کیا کہ وہ غیر بنگالی تھا۔ مولانا آزاد نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ’’پاکستان بن گیا تو نااہل سیاست دانوں کی وجہ سے یہاں بھی فوج حکمران رہے گی جس طرح کہ باقی کے اسلامی ملکوں میں ہے‘‘۔ ’’مولانا آزاد کی ہر پیش گوئی۔۔۔ حرف بہ حرف غلط‘‘ کے تحت مصنف نے مولانا آزاد کی اس پیش گوئی کے رد میں لکھا ہے کہ 1946ء میں جب مولانا نے یہ انٹرویو دیا صرف چار مسلمان ملک آزاد تھے۔ سعودی عرب، ایران اور افغانستان میں بادشاہت تھی اور ترکی میں جمہوریت۔ باقی سار ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 80 تاريخ : يکشنبه 6 فروردين 1402 ساعت: 18:47